حضرت خدیجہ تاریخ کے آئینہ میں
عورت کے مال سے مھر کی ادائیگی کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگی کااظھار کرتے ھوئے غضب کے عالم میں فرمایا،”اذاکانوا مثل ابن اخی ھذاطلبت الرجل باغلی الاثمان وان کانوا امثالکم لم یزوجوا الابالمھر الفالی"(19)(اگرکوئی مردمیرے اس بھتیجے کے مانند ھوگاتوعورت اس کوبڑے بھاری مھر دے کرحاصل کرینگی لیکن اگر وہ تمھاری طرح ھوا تواسکو خود گراںو بھاری مھر دیکر شادی کرناھوگی )ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نے اپنامھر (جو بیس بکرہ نقل ھواھے)خود ادا کیاتھا(20)اور ایک روایت کے مطابق ا?پ کے مھر کی ذمہ داری حضرت علی نے قبول کرلی تھی ،حضرت کی عمر کے سلسلے میں تمام مورخین کااس پراتفاق ھے کہ حضرت خدیجہ سے ا?پ نے پھلی شادی 25/سال کی عمر میںکی لیکن خود حضرت خدیجہ کی عمر کے بارے میںکثیر اختلاف وارد ھواھے چنانچہ 25،28،30/اور40سال تک بھت کثرت سے روایات وارد ھوئی ھیں (21)لیکن معروف ترین قول یہ ھے کہ ا?پ کی عمر شادی کے وقت 40سال تھی? (22)
عورت کی حیثیت
عورت کی حیثیت اور اس کا مقام :
ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھاوجعل بینکم مود?ورحم?(روم21)
اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاراجوڑاتمھیں میں سے پیداکیاہے تاکہ تمھیں اس سے سکون زندگی حاصل ہو اورپھرتمہارے درمیان محبت اوررحمت کا جذبہ بھی قراردیاہے ?
آیت کریمہ میں دو اہم باتوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے:
1? عورت عالم انسانیت ہی کاایک حصہ ہے اوراسے مردکاجوڑابنایاگیاہے ?اس کی حیثیت مرد سے کمترنہیں ہے?
2? عورت کامقصدوجودمرد کی خدمت نہیں ہے ،مردکاسکون زندگی ہے اورمردوعورت کے درمیان طرفینی محبت اوررحمت ضروی ہے یہ یکطرفہ معاملہ نہیں ہے?
ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درج? بقرہ ( 228)
عورتوں کے لیے ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان کے ذمہ فرائض ہیں امردوں کوان کے اوپرایک درجہ اورحاصل ہے ?
یہ درجہ حاکمیت مطلقہ کانہیں ہے بلکہ ذمہ داری کاہےم کہ مردوں کی ساخت میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ وہ عورتوں کی ذمہ داری سنبھال سکیں اوراسی بناانھیں نان ونفقہ اوراخراجات کاذمہ داربناگیاہے ?
منصب خلافت و امامت فرمان علی علیہ السلام کے پرتو میں :
ذَرَعُوا الْفُجورَ،وسَقَوہ الغُرورَ،وحَصَدُوْا الثُّبُورَ،لایُقاسُ بِا?لِ محمد(ص) من ہذہ اُلامَّةِ اَحَد،ٌ وَ لَایُسوَّی بِہِمْ مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُھم علیہ اَبَداً،ہُم اَساسُ الدِّین، وَعِمادُ الیقین، اِلیھم یَفِئیُ الغَالِی،وبھم یُلْحَقُالتاَّلِی ،ولَہُم خَصائِصُ حّقِّ الوِلَایَة،ِ وَ فِیھم الوَصِیَّةُ وَالْوِراثَةُ،اَلْا?نَ اِذْرَجَعَ الْحَقُّ اِلی? اَهلہ، ونُقِل اِلی? مُنْتَقَلِہ [1]
انہوں نے فسق و فجور کی کاشت کی ،غفلت و فریب کے پانی سے اسے سینچا اور اس سے ھلاکت کی جنس حاصل کی، اس امت میں کسی کو آل محمد(علیھم السلام) پر قیاس نھیں کیا جاسکتا،جن لوگوں پر ان کے احسانات ھمیشہ جاری رھے ہوں ،وہ ان کے برابر نھیں ہوسکتے، وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ھیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ھے اور پیچھے رہ جانے والوں کو ان سے آکر ملنا ھے، حق ولایت کی خصوصیات انھیں کے لئے ھیں،انھیں کے بارے میں پیغمبر(ص) کی وصیت اور انھیں کے لئے نبی کی وراثت ھے، اب یہ وقت وہ ھے کہ حق اپنے اھل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہوگیا ?
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا مثالی کردار
اقبال نے حضرت فاطمہ زہرا(س) کے کردار کو عورتوں کے لئے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے بیٹی ، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کی تما م عورتوں کے لئے نمونہ ہے?
فررع تسلیم را حاصل بتول مادراں رااسوہ کامل بتول
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند چشم ہوش از اُسوہ زُ ہرا مند
اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے بنیادی اوصاف فقر، قوت ، حریت اور سادگی سے عبارت ہیں اور یہ تمام حضرت فاطمہ کی زندگی میں بدرجہ اتم جمع ہوگئے تھے? انہی اوصاف نے ان کے اُسوہ کو عورتوں کے لئے رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا ہے? اور ان کی ہستی کی سب سے بڑھ کریہ دلیل ہے کہ حضرت امام حسین جیسی عظیم و مدبر شخصیت کو انہوں نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا ? اقبال کی نظر میں عورت کے بطن سے اگر ایک ایسا آدمی پیدا ہوجائے جو حق پرستی اور حق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد قرار دے تو اس عورت نے گویا اپنی زندگی کے منشاءکو پورا کر دیا? اسی لئے وہ مسلمان عورتوں سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں?
اگر پندے ز درو یشے پذیری ہزار اُمت بمیرد تو نہ میری!
بتو لے باش و پنہاں شواز یں عصر کہ در آغوش شبیرے بگیری!
ابھی تک ھم نے اھل بیت علیھم السلام اور بارہ اماموں کے فضائل کے بارے میں بطور عموم صحیحین سے روایات آپ کی خدمت میں نقل کیں ھیں اب ھم فرداً فرداً اھل بیت کے فضائل میں صحیحین سے روایات نقل کرتے ھیں،چنانچہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل سے شروع کرکے حضرت فاطمہ زھر ا سلام الله علیھا پھر حسنین علیھما السلام کے مشترکہ فضائل ذکر کریں گے، اس کے بعد ان میں سے ھرایک کے علی?حدہ فضائل بیان کریں گے ?
پھلی فضیلت: د شمنانِ علی دشمنانِ خد ا ھیں
1?,,…عن ابی ذرقال نزلت الآیة:<ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ>[30] فی ستة مِن قر یشٍ عَلِی وَحَمزَة وَ عُبَیدَة بنِ الحا رث،و شیبة بن ربیعة وعُتبة بن ربیعة والولید بن عتبة"[31]
ابوذر کھتے ھیں :
یہ آیت<ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِ >دو قریش کے گروہ جو راہ خدا میں ا?پس میں دشمنی اور عداوت رکھتے تھے یہ ا?یت تین خالص مومن اور قریش کے تین کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ھے یعنی علی (ع) ، حمزہ(ع)، عبیدہ بن حا رث، یہ توحید کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے لڑے اور عتبہ ، شیبہ، ولید، یہ توحید کے پرچم کو سرنگوں کرنے کے لئے لڑے?
2?,,… قیس بن عباد عن علی (ع)؛ فینا نزلت ہ?ذہ الآیة:< ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ>?[32]
قیس بن عباد حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں :
آیہ? < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ> ھماری شان میں نازل ہوئی ?
آیة اللہ العظمی حاج شیخ مرزاجوادتبریزی
آیة اللہ العظمی حاج شیخ مرزاجوادتبریزی سن 1305 ہجری شمسی میں تبریزمیں پیداہوئے ? 18 سال کی عمرتک انہوں نے دنیوی علم حاصل کیا اورسن 1323 ہجر ی شمسی میں انہوں نے دینی تعلیم کے لئے تبریزکے مدرسہ طالبیہ میں داخلہ لیا ? چارسال کے عرصہ میں اپنی ابتدائی تعلیم پوری کر نے کے بعد وہ سن 1327 ہجری شمسی میں اعلی تعلیم کے لئے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے ? و ہاں پر وہ سطح کی تعلیم پوری کرنے کے بعد آیة اللہ العظمی بروجردی کے درس خارج سے علمی استفادہ کرتے ہو ئے تدریس بھی کرنے لگے ? سن 1332 ہجری شمسی میں اپنے علم میں اضافہ کی غرض سے وہ نجف اشرف تشریف لے گئے اوروہاں پرانہوں نے آیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی اورآیة العظمی سیدعبدالہادی شیرازی کے درس خارج سے کسب فیض کیا?
آیة اللہ تبریزی ، آیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی کے خاص شاگردکے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں ? موصوف 23 سال تک حوزہ علمیہ نجف میں رہ ے? سن 1355 ہجری شمسی میں جب آپ کربلاکی زیارت کرکے نجف کی طرف جارہے تھے تو اس وقت عراقی فوج نے آپ کوگرفتارکرکے ایران واپس بھیج دیا?
عراق سے آنے کے بعد وہ حوزہ علمیہ قم میں فقہ واصول کا درس خارج کہنے لگے اورعصرحاضرمیں طالب علموں کی ایک بہت بڑی تعدادان کے درس خارج سے علمی فیض حاصل کررہی ہے?
آیة اللہ العظمی تبریزی کی تالیفات:
1 ? رسالہ توضیح المسائل
2 ? احکام بانوان درحج
3 ? مناسک حج
4 ? عبقات ولایت
5 ? نفی ال سہوعن النبی
6 ? رسالة المختصر
7 ? المسائل المنتخبہ
8 ?اساس الحدود و التعزیرات
9 ? اساس ال قضاو الشہادات
10 ? صراط النجات
حضرت آیة اللہ العظمی وحیدخراسانی
حضرت آیة اللہ العظمی وحیدخراسانی سن 1300 ہجری شمسی میں مقدس شہرمشہدمیں پیداہوئے ? انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم آیة اللہ حاج شیخ محمدنہاوندی سے حاصل کی? موصوف نے بعدمیں آیة اللہ العظمی مرزامہدی اصفہانی اورآیة اللہ العظمی آشتیانی کے درس خارج سے استفادہ کیا ? انہوں نے فلسفہ اورحکمت کومرحوم مرزاابوالقاسم الہی اورمرزامہدی اصفہانی سے پڑھا?
27 سال کی عمرمیں وہ اپنی علمی صلاحیت ب ڑھا نے کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے اوروہاں پرآیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی کے درس خارج سے کسب فیض کرنے لگے ? دورحاضر میں وہ آیة اللہ العظمی خوئی کے خاص شاگردوں میں گنے جاتے ہیں?
انہوں نے سن 1378 ہجری قمری میں فقہ واصول کادرس خارج کہناشروع کیااور 12 سال تک نجف کے حوزہ میں درس خارج کہتے رہے?
1390 ہجری قمری میں ایران آنے کے بعدانہوں نے مشہدمقدس میں درس دیناشروع کیااورایک سال وہاں رکنے کے بعد قم میں آگئے اوریہاں پرفقہ واصول کادرس خارج کہنے لگے ? دور حاضرمیں حوزہ علمیہ قم کے بہت سے طالب علم ان کے درس سے استفادہ حاصل کررہے ہیں?