منصب خلافت و امامت فرمان علی علیہ السلام کے پرتو میں :
ذَرَعُوا الْفُجورَ،وسَقَوہ الغُرورَ،وحَصَدُوْا الثُّبُورَ،لایُقاسُ بِا?لِ محمد(ص) من ہذہ اُلامَّةِ اَحَد،ٌ وَ لَایُسوَّی بِہِمْ مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُھم علیہ اَبَداً،ہُم اَساسُ الدِّین، وَعِمادُ الیقین، اِلیھم یَفِئیُ الغَالِی،وبھم یُلْحَقُالتاَّلِی ،ولَہُم خَصائِصُ حّقِّ الوِلَایَة،ِ وَ فِیھم الوَصِیَّةُ وَالْوِراثَةُ،اَلْا?نَ اِذْرَجَعَ الْحَقُّ اِلی? اَهلہ، ونُقِل اِلی? مُنْتَقَلِہ [1]
انہوں نے فسق و فجور کی کاشت کی ،غفلت و فریب کے پانی سے اسے سینچا اور اس سے ھلاکت کی جنس حاصل کی، اس امت میں کسی کو آل محمد(علیھم السلام) پر قیاس نھیں کیا جاسکتا،جن لوگوں پر ان کے احسانات ھمیشہ جاری رھے ہوں ،وہ ان کے برابر نھیں ہوسکتے، وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ھیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ھے اور پیچھے رہ جانے والوں کو ان سے آکر ملنا ھے، حق ولایت کی خصوصیات انھیں کے لئے ھیں،انھیں کے بارے میں پیغمبر(ص) کی وصیت اور انھیں کے لئے نبی کی وراثت ھے، اب یہ وقت وہ ھے کہ حق اپنے اھل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہوگیا ?
ابھی تک ھم نے اھل بیت علیھم السلام اور بارہ اماموں کے فضائل کے بارے میں بطور عموم صحیحین سے روایات آپ کی خدمت میں نقل کیں ھیں اب ھم فرداً فرداً اھل بیت کے فضائل میں صحیحین سے روایات نقل کرتے ھیں،چنانچہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل سے شروع کرکے حضرت فاطمہ زھر ا سلام الله علیھا پھر حسنین علیھما السلام کے مشترکہ فضائل ذکر کریں گے، اس کے بعد ان میں سے ھرایک کے علی?حدہ فضائل بیان کریں گے ?
پھلی فضیلت: د شمنانِ علی دشمنانِ خد ا ھیں
1?,,…عن ابی ذرقال نزلت الآیة:<ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ>[30] فی ستة مِن قر یشٍ عَلِی وَحَمزَة وَ عُبَیدَة بنِ الحا رث،و شیبة بن ربیعة وعُتبة بن ربیعة والولید بن عتبة"[31]
ابوذر کھتے ھیں :
یہ آیت<ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِ >دو قریش کے گروہ جو راہ خدا میں ا?پس میں دشمنی اور عداوت رکھتے تھے یہ ا?یت تین خالص مومن اور قریش کے تین کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ھے یعنی علی (ع) ، حمزہ(ع)، عبیدہ بن حا رث، یہ توحید کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے لڑے اور عتبہ ، شیبہ، ولید، یہ توحید کے پرچم کو سرنگوں کرنے کے لئے لڑے?
2?,,… قیس بن عباد عن علی (ع)؛ فینا نزلت ہ?ذہ الآیة:< ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ>?[32]
قیس بن عباد حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں :
آیہ? < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ> ھماری شان میں نازل ہوئی ?
آیة اللہ العظمی حاج شیخ مرزاجوادتبریزی
آیة اللہ العظمی حاج شیخ مرزاجوادتبریزی سن 1305 ہجری شمسی میں تبریزمیں پیداہوئے ? 18 سال کی عمرتک انہوں نے دنیوی علم حاصل کیا اورسن 1323 ہجر ی شمسی میں انہوں نے دینی تعلیم کے لئے تبریزکے مدرسہ طالبیہ میں داخلہ لیا ? چارسال کے عرصہ میں اپنی ابتدائی تعلیم پوری کر نے کے بعد وہ سن 1327 ہجری شمسی میں اعلی تعلیم کے لئے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے ? و ہاں پر وہ سطح کی تعلیم پوری کرنے کے بعد آیة اللہ العظمی بروجردی کے درس خارج سے علمی استفادہ کرتے ہو ئے تدریس بھی کرنے لگے ? سن 1332 ہجری شمسی میں اپنے علم میں اضافہ کی غرض سے وہ نجف اشرف تشریف لے گئے اوروہاں پرانہوں نے آیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی اورآیة العظمی سیدعبدالہادی شیرازی کے درس خارج سے کسب فیض کیا?
آیة اللہ تبریزی ، آیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی کے خاص شاگردکے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں ? موصوف 23 سال تک حوزہ علمیہ نجف میں رہ ے? سن 1355 ہجری شمسی میں جب آپ کربلاکی زیارت کرکے نجف کی طرف جارہے تھے تو اس وقت عراقی فوج نے آپ کوگرفتارکرکے ایران واپس بھیج دیا?
عراق سے آنے کے بعد وہ حوزہ علمیہ قم میں فقہ واصول کا درس خارج کہنے لگے اورعصرحاضرمیں طالب علموں کی ایک بہت بڑی تعدادان کے درس خارج سے علمی فیض حاصل کررہی ہے?
آیة اللہ العظمی تبریزی کی تالیفات:
1 ? رسالہ توضیح المسائل
2 ? احکام بانوان درحج
3 ? مناسک حج
4 ? عبقات ولایت
5 ? نفی ال سہوعن النبی
6 ? رسالة المختصر
7 ? المسائل المنتخبہ
8 ?اساس الحدود و التعزیرات
9 ? اساس ال قضاو الشہادات
10 ? صراط النجات
حضرت آیة اللہ العظمی وحیدخراسانی
حضرت آیة اللہ العظمی وحیدخراسانی سن 1300 ہجری شمسی میں مقدس شہرمشہدمیں پیداہوئے ? انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم آیة اللہ حاج شیخ محمدنہاوندی سے حاصل کی? موصوف نے بعدمیں آیة اللہ العظمی مرزامہدی اصفہانی اورآیة اللہ العظمی آشتیانی کے درس خارج سے استفادہ کیا ? انہوں نے فلسفہ اورحکمت کومرحوم مرزاابوالقاسم الہی اورمرزامہدی اصفہانی سے پڑھا?
27 سال کی عمرمیں وہ اپنی علمی صلاحیت ب ڑھا نے کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے اوروہاں پرآیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی کے درس خارج سے کسب فیض کرنے لگے ? دورحاضر میں وہ آیة اللہ العظمی خوئی کے خاص شاگردوں میں گنے جاتے ہیں?
انہوں نے سن 1378 ہجری قمری میں فقہ واصول کادرس خارج کہناشروع کیااور 12 سال تک نجف کے حوزہ میں درس خارج کہتے رہے?
1390 ہجری قمری میں ایران آنے کے بعدانہوں نے مشہدمقدس میں درس دیناشروع کیااورایک سال وہاں رکنے کے بعد قم میں آگئے اوریہاں پرفقہ واصول کادرس خارج کہنے لگے ? دور حاضرمیں حوزہ علمیہ قم کے بہت سے طالب علم ان کے درس سے استفادہ حاصل کررہے ہیں?
اسلام جو آخری آئین الہی اور مکمل ترین دین ہے،ھمیشہ اور تمام عالم بشریت کے لی? خدا کی جانب سے نازل ھوا ہے لباس کو" ھدیہ الہی" بیان کرتاہے، اوروجوب حجاب کو تعادل اور میانہ روی سے پورے جامعہ بشری کے لی? پیش کرتا ہے ،جس میں افراط وتفریط اورانحرافات سے اجتناب کیا گیا ہے،اورانسانی غریزوں کو مد نظررکھتے ھو? شرعی حدیں قائم کی گئی ہیں حو فطرت سے نیز ھماہنگ ہیں
حجاب اور مسیحیتجیسا کے پہلے ذکرھو چکا ہے کہ ہر ادیان الھی میں حجاب فطرت اورتمام احکامات سے مطابقت رکھتا ہے ،جبھی تو دین زرتشت اوریھود کے علاوہ مسیحیت میں بھی حجاب واجب قرار پایا ہے? مسیحی دانشمند{جرجی زیدان}اس بارے میں کہتے ہیں :
کہ اگر حجاب سے مراد فقط ظاھری بدن کا چھپانا ہےتو اسلام ، حتی دین مسیحیت سے پہلے بھی یہ عام تھا ،جس کے آثار اب بھی یورپ میں دکھائی دیتےہیں ?
احکام شریعت یھودکومسیحیوں نے تبدیل نہیں کیا، بلکہ اسی پر عمل پیراںبھی رہے،بعض اوقات تو حجاب کےمعاملے میں انتہائی سختگیری کا مظاہرہ کرتے اورھمیشہ حجاب کے واجب ھونے پرتاکید کرتے تہے ?
شریعت یھود میں گھر بسانے اور شادی کرنے کومقدس سمجھا جاتاہے ،کتاب "تاریخ وتمدن میں لکھا ہے:20 سال کی عمر تک شادی کرنا لازمی امر ہے ،جبکہ مسیحیوں کے مطابق شادی نا کرنے کومقدس سمجھا جاتاہے،اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کوکنڑول کرنے کے لی?خواتین کےحجاب میں سختی کے قائل تہے،خواتین کے بننے سنورنےکی شدت سے مخالفت کرتے تہےاور ھمیشہ اپنی خواتین کو مکمل حجاب کی تاکید کرتے ?
اس موضوع پر انجیل کہتا ہے :
? ? ? ? ? اور خواتین کو چاھی? کہ وہ جواھرات اور قیمتی ملبوسات کی بجا? حیا اور تقوی کالباس سےآراستہ ھوں، بہترین عورت وہ ہے جونیک اعمال کوبجا لانےمیں دیندارھونےکا دعوی کرے ? ? 17
اے خواتین ! اپنے شوھروں کی اطاعت کرو،صورت کی بجا? سیرت پر توجہ دو،کیونکہ بالوں کو سنوار کر، قیمتی ملبوسات اور زیورات پہن کرصرف ظاھری خوبصورتی ہی حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ خدا کے نزدیک باطنی اور قلبی انسانیت ذیادہ اھمیت کی حامل ہے، اسی لی? تو مقدس خواتین ھمیشہ خدا پر توکل کرتیں، ظاھر کی بجا? باطن کو سنوارتیں،اوراپنے شوھروں کی فرمابردار تہیں،جیسے سارہ ابراھیم کی فرمانبردارتھی اور تم سب اسی کی اولاد ھو ? 18
اسی طرح خواتین کے باوقار اور امارنتدار ھونے کے بارے میں پڑھتے ہیں :
اورایسی خواتین نیز باوقار،غیبتگوئی سے بچنے والی ،عاقل اور امانتدار ھوں ?19
روایات کے مطابق حضرت عیسی (علیه السلام) فرماتے ہیں :
عورتوں پر نگاہ کرنے سے پرھیز کرو ،کیونکہ یہ دل میں شہوت کی گرہیں باندھتا ہے، اور فتنے وفساد کے لی? یہ ایک نگاہ ہی کافی ہے? 20
حضرت عیسی (علیه السلام) کے اصحاب ،پاپ اوربزرگ دینی رہنماؤں کلیسا اور دین مسیحیت کیطرف سے جودستورات لازم اجرا قرار پا?ہیں ان کے مطابق خواتین کو سختی سے مکمل حجاب کی تلقین اور ظاھری زینت سے منع کیا گیا ہے ?
ڈاکٹر حکیم الہی جو لندن یونیورسٹی کےاستادہیں ،اپنی کتاب "عورت اور آذادی " میں یورپ کی خواتین کے مقام کی تشریح کے بعد مسیحیت میں عورت کے پردے اور حجاب کی توضیح کے لی? دو عظیم مسیحی رہنما Climnt اور Tertolyanکے نظرے کو بیان کرتے ہیں:
عورت کو ھمیشہ مکمل حجاب میں رہنا چاھی?سوا? اپنے گھر کے،کیونکہ فقط یہ پردہ ہی ہے جو اسے مسموم نگاھوں سے محفوظ رکھتا ہے ، اورعورت اپنا چہرہ ضرور چھپا?،کیونکہ ممکن ہےاس کی صورت دیکھکر بہت سےافراد گناہ میں مبتلا نہ ھو جائیں? خدا کے نزدیک ایک عیسائی مومنہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ زیورات سے آراستہ ھو کر غیرمردوں کے سامنے جا? ،حتی ظاھری زینت کو بھی آشکار نہ کرے ،کیونکہ دیکھنے والوں کے لی? خطرناک ہے ? "21
یورپ اورمسیحی خواتین کی منتشر تصاویرسے واضح ھو جاتا ہے کہ اس زمانے کی خواتین حجاب کی مکمل رعایت کرتی تہیں Braon اورIshnaider نےاپنی کتاب "مختلف قوموں کے ملبوسات"میں بعض مسیحی خواتین کے ملبوسات کی تصاویر شایع کی ہیں ،جو ان کےمکمل حجاب پربہترین دلیل ہے
اسلام اورخواھشات کی تسکین
دین اسلام نے واقعی، فطری، انفرادی، اجتماعی تمام ضرورتوں اور مصلحتوں کو پیش نظر رکھتے ھوئے جنسی تسکین کے لئے راستہ معین کیا ہے جس میں بے جا پابندیوں کے نہ خراب اثرات ھیں اور نہ بے قید و شرط ا?زادی کے تباہ کن نتائج ?
اسلام نے ایک طرف غیر شادی شدہ رھنے اور معاشرہ سے کنارہ کش رھنے سے منع کیا ہے اور دوسری طرف جنسی تسکین کے لئے شادی کی ترغیب دلائی ہے اور جھاں جنسی کشش کی سر کشی کا خطرہ ھو وھاں شادی کو واجب قرار دیا ہے ?
غیر شادی شدہ رہنااسلام نے تنھا اور غیر شادی شدہ رھنے کو اچھا نھیں سمجھا ہے بلکہ اس کی سخت مذمت کی ہے حضرت رسول (ص) خدا کا ارشاد ہے :
" میری امت کے بھترین لوگ شادی شدہ ھیں اور وہ لوگ برے ھیں جو شادی شدہ نھیں ھیں " (1)
عبد اللہ ابن مسعود کا بیان ہے کہ ایک جنگ میں ھم لوگ حضرت رسول خدا(ص) کے ھمرکاب تہے چونکہ ھماری بیویاں ھمارے ساتھ نھیں تھیں ، ھم لوگ سختی سے دن گزار رہے تہے ? ھم لوگوں نے ا?نحضرت سے دریافت کیا ، کیا جائز ہے کہ ھم لوگ اپنی جنسی خواھشات کو بالکل نابود کردیں ؟ حضرت نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ?(2)
اسلام اور رھبانیت
رھبانیت ( دنیا اور اس کی لذتوں کو ترک کر دینا ) کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے مسلمانوں کو اس سے دور رھنا چاھئے ? پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
" لیس فی امتی رھبانیة “ ” میری امت میں رھبانیت نھیں ہے "(3)
ا?نحضرت کو جب یہ معلوم ھوا کہ ا?پ کے ایک صحابی ” عثمان بن مظعون “ نے دنیا سے منہ پھیر لیا ہے بیوی بچوں سے کنارہ کش ھو گئے ھیں ، دن روزے میں رات عبادت میں بسر کرتے ھیں ، ا?نحضرت کو ناگوار گزرا?ناگواری کے عالم میں گھر سے باھر تشریف لائے اور عثمان بن مظعون کے پاس گئے اور فرمایا :
" خدا وند عالم نے مجہے رھبانیت کے لئے نھیں بھیجا ہے بلکہ مجہے ایسے دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے جو معتدل ہے، ا?سان ہے جس میں دشواریاں نھیں ھیں ? میںبھی روزہ رکھتا ھوں ، نمازیں پڑھتا ھوں اور اپنی ازواج سے نزدیکی کرتا ھوں جو شخص میرے فطری دین کو دوست رکھتا ہے اس کو چاھئے کہ وہ میری سنت اور روش کی پیروی کرے اور شادی کرنا میری سنتوں میں سے ایک ہے "(4)
آزادی نسواں
اقبال اگرچہ عورتوں کے لئے صحیح تعلیم ، ان کی حقیقی آزادی اور ان کی ترقی کے خواہاں ہیں? لیکن آزادی نسواں کے مغربی تصور کو قبول کرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں اس آزادی سے ان کی نظر میں عورتوں کی مشکلات آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی ? اور اس طرح یہ تحریک عورت کو آزاد نہیں بلکہ بے شمار مسائل کا غلام بنا دے گی? ثبوت کے طور پر مغربی معاشرہ کی مثال کو وہ سامنے رکھتے ہےں جس نے عورت کو بے بنیاد آزادی دے دی تھی تو اب وہ اس کے لئے درد ِ سر کا باعث بنی ہوئی ہے? کہ مرد و زن کا رشتہ بھی کٹ کر رہ گیا ہے?
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا! مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور! کہ مرد سادہ ہے بےچارہ زن شناس نہیں
اقبال کی نظر میں آزادی نسواں یا آزادی رجال کے نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ انتہائی گمراہ کن ہیں? کیونکہ عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کا بوجھ اُٹھانا ہوتا ہے? اور زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے لئے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے دونوں کے کامل تعاون کے بغیر زندگی کاکام ادھورا اور اس کی رونق پھیکی رہ جاتی ہے? اس لئے ان دونوں کو اپنے فطری حدود میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو بنانے سنوارنے کا کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا ساتھی ثابت ہونا چاہیے? نہ کہ مدمقابل چنانچہ آزادی نسواں کے بارے میں وہ فیصلہ عورت پر ہی چھوڑ تے ہیں کہ وہ خود سوچے کہ اس کے لئے بہتر کیا ہے?
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں کر سکتا گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش مجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند!