خبرگزاری فارس: مهدی کروبی دبیر کل حزب اعتماد ملی در گفتوگو با خبرنگار سیاسی خبرگزاری فارس، در خصوص نقد اندیشه امام(ره) گفت: اندیشه امام(ره) را نقد کردن یعنی چه؟ نمیگویم امام معصوم است، اما یک سری اندیشههایی ایشان دارد که اساس و محکمات نظام جمهوری اسلامی است. کروبی در ادامه افزود: آنهایی که سخن از نقد امام(ره) میزنند، میخواهند ریشههای جمهوری اسلامی را نقد کنند. طرح این مسائل نه درست است و نه مصلحت ماست.
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
نقد و نظر:
سخنان عجیب و بی اساس آقای کروبی در مصاحبه با خبرگزاری فارس، جدای از اینکه هویت واقعی مدعیان اصلاح طلبی را روشن می کند، اما بسیار تأسف برانگیز است. مخصوصاً آنجا که ایشان میگوید، نقد امام به مصلحت ما نیست! باید از ایشان پرسید، اگر او را که شما امام می خوانید معصوم نبوده است پس چرا نباید او را نقد کرد! در حالی که امیرالمؤمنین علی(ع) در دوران کوتاه حکومتش، هموراه از مردم می خواست که او را نقد کنند و مشورت بدهند. اگر آنها که معصوم بوده اند را میشود نقد کرد، چگونه آن امامی را که معصوم نیست، نباید نقد کرد؟
این شیخ کهنه کار سیاسی در بخشی دیگر از سخنان خود گفته است: « آنهایی که سخن از نقد امام(ره) میزنند، میخواهند ریشههای جمهوری اسلامی را نقد کنند. طرح این مسائل نه درست است و نه مصلحت ماست.»
اینکه نقد جمهوری اسلامی به مصلحت آقای کروبی و حضرات ولایت پناه نیست که شکی در آن نیست! اما چرا نقد ریشه ها و مبانی جمهوری اسلامی درست نیست! واقعاً ذکر چنین سخنانی در دنیای امروز، تا چه حد غیر منطقی و غیر عقلانی و خنده آورست و به لحاظ شرعی، تا چه حد نادرست و غیر عادلانه!
اگر نظام جمهوری اسلامی مبتنی بر نظریه ولایت فقیه است که هست، اما کدام نظریه سیاسی را میشود پیدا کرد که مطلقاً درست باشد! مگر اصول و مبانی نظام جمهوری اسلامی، اصول دین است که مطلق باشد!؟
اگر این سخنان را یک نظریه پرداز رهگذر به زبان رانده بود، گفته ای بود در میان هزاران هزار از خزعبلاتی که هر روز از منابر و تریبون های مختلف گفته میشود، اما از آنجا که یکی از شخصیت های پرنفوذ و اثرگذار نظام، چنین می گوید، تنها به معنی آن نیست که نقد اندیشه های امام(ره) امری مذموم است، بلکه به معنای آنست که هیچ کس حق ندارد وی را نقد کند و اگر چنین کند، سرنوشت او مشخص است!
باری به هر حال، باید خدا را شکر کرد که این روحانی اصلاح طلب! نگفته است که نقد اندیشه امام، به مصلحت اسلام نیست! شاید که بتوان ایشان را اصلاح طلب نامید!
امام صادق(ع) در تفسیر (حَیِّ علی خَیرِ العَمل: بشتابید به سوی بهترین کارها) فرمود:
خَیرُِ العَملَ برُّ فاطِمَةَ وَ وُلْدِها.
بهترین کار، نیکی به فاطمه، درک فیوضات این موجود بی نظیر و رسیدن به عرفان فرزندان معصومش است.
* مناقب بن شهر آشوب.
اسلام اورخواھشات کی تسکین
دین اسلام نے واقعی، فطری، انفرادی، اجتماعی تمام ضرورتوں اور مصلحتوں کو پیش نظر رکھتے ھوئے جنسی تسکین کے لئے راستہ معین کیا ہے جس میں بے جا پابندیوں کے نہ خراب اثرات ھیں اور نہ بے قید و شرط ا?زادی کے تباہ کن نتائج ?
اسلام نے ایک طرف غیر شادی شدہ رھنے اور معاشرہ سے کنارہ کش رھنے سے منع کیا ہے اور دوسری طرف جنسی تسکین کے لئے شادی کی ترغیب دلائی ہے اور جھاں جنسی کشش کی سر کشی کا خطرہ ھو وھاں شادی کو واجب قرار دیا ہے ?
غیر شادی شدہ رہنااسلام نے تنھا اور غیر شادی شدہ رھنے کو اچھا نھیں سمجھا ہے بلکہ اس کی سخت مذمت کی ہے حضرت رسول (ص) خدا کا ارشاد ہے :
" میری امت کے بھترین لوگ شادی شدہ ھیں اور وہ لوگ برے ھیں جو شادی شدہ نھیں ھیں " (1)
عبد اللہ ابن مسعود کا بیان ہے کہ ایک جنگ میں ھم لوگ حضرت رسول خدا(ص) کے ھمرکاب تہے چونکہ ھماری بیویاں ھمارے ساتھ نھیں تھیں ، ھم لوگ سختی سے دن گزار رہے تہے ? ھم لوگوں نے ا?نحضرت سے دریافت کیا ، کیا جائز ہے کہ ھم لوگ اپنی جنسی خواھشات کو بالکل نابود کردیں ؟ حضرت نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ?(2)
اسلام اور رھبانیت
رھبانیت ( دنیا اور اس کی لذتوں کو ترک کر دینا ) کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے مسلمانوں کو اس سے دور رھنا چاھئے ? پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
" لیس فی امتی رھبانیة “ ” میری امت میں رھبانیت نھیں ہے "(3)
ا?نحضرت کو جب یہ معلوم ھوا کہ ا?پ کے ایک صحابی ” عثمان بن مظعون “ نے دنیا سے منہ پھیر لیا ہے بیوی بچوں سے کنارہ کش ھو گئے ھیں ، دن روزے میں رات عبادت میں بسر کرتے ھیں ، ا?نحضرت کو ناگوار گزرا?ناگواری کے عالم میں گھر سے باھر تشریف لائے اور عثمان بن مظعون کے پاس گئے اور فرمایا :
" خدا وند عالم نے مجہے رھبانیت کے لئے نھیں بھیجا ہے بلکہ مجہے ایسے دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے جو معتدل ہے، ا?سان ہے جس میں دشواریاں نھیں ھیں ? میںبھی روزہ رکھتا ھوں ، نمازیں پڑھتا ھوں اور اپنی ازواج سے نزدیکی کرتا ھوں جو شخص میرے فطری دین کو دوست رکھتا ہے اس کو چاھئے کہ وہ میری سنت اور روش کی پیروی کرے اور شادی کرنا میری سنتوں میں سے ایک ہے "(4)
آزادی نسواں
اقبال اگرچہ عورتوں کے لئے صحیح تعلیم ، ان کی حقیقی آزادی اور ان کی ترقی کے خواہاں ہیں? لیکن آزادی نسواں کے مغربی تصور کو قبول کرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں اس آزادی سے ان کی نظر میں عورتوں کی مشکلات آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی ? اور اس طرح یہ تحریک عورت کو آزاد نہیں بلکہ بے شمار مسائل کا غلام بنا دے گی? ثبوت کے طور پر مغربی معاشرہ کی مثال کو وہ سامنے رکھتے ہےں جس نے عورت کو بے بنیاد آزادی دے دی تھی تو اب وہ اس کے لئے درد ِ سر کا باعث بنی ہوئی ہے? کہ مرد و زن کا رشتہ بھی کٹ کر رہ گیا ہے?
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا! مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور! کہ مرد سادہ ہے بےچارہ زن شناس نہیں
اقبال کی نظر میں آزادی نسواں یا آزادی رجال کے نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ انتہائی گمراہ کن ہیں? کیونکہ عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کا بوجھ اُٹھانا ہوتا ہے? اور زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے لئے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے دونوں کے کامل تعاون کے بغیر زندگی کاکام ادھورا اور اس کی رونق پھیکی رہ جاتی ہے? اس لئے ان دونوں کو اپنے فطری حدود میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو بنانے سنوارنے کا کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا ساتھی ثابت ہونا چاہیے? نہ کہ مدمقابل چنانچہ آزادی نسواں کے بارے میں وہ فیصلہ عورت پر ہی چھوڑ تے ہیں کہ وہ خود سوچے کہ اس کے لئے بہتر کیا ہے?
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں کر سکتا گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش مجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند!
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا مثالی کردار
اقبال نے حضرت فاطمہ زہرا(س) کے کردار کو عورتوں کے لئے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے بیٹی ، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کی تما م عورتوں کے لئے نمونہ ہے?
فررع تسلیم را حاصل بتول مادراں رااسوہ کامل بتول
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند چشم ہوش از اُسوہ زُ ہرا مند
اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے بنیادی اوصاف فقر، قوت ، حریت اور سادگی سے عبارت ہیں اور یہ تمام حضرت فاطمہ کی زندگی میں بدرجہ اتم جمع ہوگئے تھے? انہی اوصاف نے ان کے اُسوہ کو عورتوں کے لئے رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا ہے? اور ان کی ہستی کی سب سے بڑھ کریہ دلیل ہے کہ حضرت امام حسین جیسی عظیم و مدبر شخصیت کو انہوں نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا ? اقبال کی نظر میں عورت کے بطن سے اگر ایک ایسا آدمی پیدا ہوجائے جو حق پرستی اور حق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد قرار دے تو اس عورت نے گویا اپنی زندگی کے منشاءکو پورا کر دیا? اسی لئے وہ مسلمان عورتوں سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں?
اگر پندے ز درو یشے پذیری ہزار اُمت بمیرد تو نہ میری!
بتو لے باش و پنہاں شواز یں عصر کہ در آغوش شبیرے بگیری!
حضرت خدیجہ تاریخ کے آئینہ میں
عورت کے مال سے مھر کی ادائیگی کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگی کااظھار کرتے ھوئے غضب کے عالم میں فرمایا،”اذاکانوا مثل ابن اخی ھذاطلبت الرجل باغلی الاثمان وان کانوا امثالکم لم یزوجوا الابالمھر الفالی"(19)(اگرکوئی مردمیرے اس بھتیجے کے مانند ھوگاتوعورت اس کوبڑے بھاری مھر دے کرحاصل کرینگی لیکن اگر وہ تمھاری طرح ھوا تواسکو خود گراںو بھاری مھر دیکر شادی کرناھوگی )ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نے اپنامھر (جو بیس بکرہ نقل ھواھے)خود ادا کیاتھا(20)اور ایک روایت کے مطابق ا?پ کے مھر کی ذمہ داری حضرت علی نے قبول کرلی تھی ،حضرت کی عمر کے سلسلے میں تمام مورخین کااس پراتفاق ھے کہ حضرت خدیجہ سے ا?پ نے پھلی شادی 25/سال کی عمر میںکی لیکن خود حضرت خدیجہ کی عمر کے بارے میںکثیر اختلاف وارد ھواھے چنانچہ 25،28،30/اور40سال تک بھت کثرت سے روایات وارد ھوئی ھیں (21)لیکن معروف ترین قول یہ ھے کہ ا?پ کی عمر شادی کے وقت 40سال تھی? (22)
عورت کی حیثیت
عورت کی حیثیت اور اس کا مقام :
ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھاوجعل بینکم مود?ورحم?(روم21)
اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاراجوڑاتمھیں میں سے پیداکیاہے تاکہ تمھیں اس سے سکون زندگی حاصل ہو اورپھرتمہارے درمیان محبت اوررحمت کا جذبہ بھی قراردیاہے ?
آیت کریمہ میں دو اہم باتوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے:
1? عورت عالم انسانیت ہی کاایک حصہ ہے اوراسے مردکاجوڑابنایاگیاہے ?اس کی حیثیت مرد سے کمترنہیں ہے?
2? عورت کامقصدوجودمرد کی خدمت نہیں ہے ،مردکاسکون زندگی ہے اورمردوعورت کے درمیان طرفینی محبت اوررحمت ضروی ہے یہ یکطرفہ معاملہ نہیں ہے?
ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درج? بقرہ ( 228)
عورتوں کے لیے ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان کے ذمہ فرائض ہیں امردوں کوان کے اوپرایک درجہ اورحاصل ہے ?
یہ درجہ حاکمیت مطلقہ کانہیں ہے بلکہ ذمہ داری کاہےم کہ مردوں کی ساخت میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ وہ عورتوں کی ذمہ داری سنبھال سکیں اوراسی بناانھیں نان ونفقہ اوراخراجات کاذمہ داربناگیاہے ?